کتابوں کی ترتیب و تدوین کا کام ادب میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ تخلیق کے زمرے میں نہیں آتا اور اس کے لئے جو محنت و مشقت کی ضرورت ہوتی ہے اس کا ریوارڈ کبھی مرتّب کو نہیں ملتا مگر اس کام کی اہمیت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اب اگر کسی موضوع پہ یا کسی شخصیت پہ آپ کچھ پڑھنا چاہیں اور اس پہ باقاعدہ کوئی کتاب میسر نہ ہو تو آپ کیا کر سکتے ہیں۔ مختلف مضامین جو متعلقہ موضوع پہ لکھے جاچکے ہیں، مختلف اوقات میں مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں وہ یقیناََ سب کے سب آپکی دسترس میں نہیں ہوں۔ ہر ایک مضمون کے لئے آپ کو ایک پورا رسالہ کھنگالنا پڑے گا، دس مضامین کے لئے دس مختلف رسائل کی ورق گردانی کرنے پڑے گی جو ایک انتہائی صبر آزما کام ہے۔
آپ کی موضوع سے متعلق لکھے گئے تمام مضامین اگر آپ کو ایک کتاب میں دستیاب ہوں تو سونے پہ سہاگا، مگر ضرور اس کے لئے کسی مرتّب نے عرق ریزی کی ہوگی۔ اسی طرح کا ایک کتاب ”سنّاٹے کا کورا کاغذ “ ہے، جسے صلاح الدّین بیوس نے مرتّب کیا ہے۔ اس کتاب میں عطاشاد کی زندگی اور فن سے متعلق مختلف ادوار میں لکھے گئے اردو مضامین شامل ہیں۔
اس کتاب میں موجود مضامین کو پڑھنے سے قاری کو عطاشاد کی زندگی، اس کی ادبی خدمات، اور شاعری جس طرح ان قلمکاروں نے دیکھا اور محسوس کیا ہے، وہ سب کچھ پڑھنے کو ملے گا۔
مطلب میں نے پہلی بار اسی کتاب کے توسط سے جانا ہے کہ عطاشاد کی ایک غزل پشتو کے مشہور گلوکار ”ناشناس“ نے بھی ریکارڈ کیا ہے۔ یا یہ کہ عطاشاد بلوچستان میں بننے والی پہلی فیچر فلم ”انتقام کی آگ“ کے نغمہ نگار رہے ہیں۔ کافی شعراء تو ”دشت“ ٹی۔وی ڈرامے کی وجہ سے عطا سے متعارف ہوئے ہیں اور اس کی شاعری کو مزید پڑھنے کی تمنا لئے اس کی کھوج میں نکلے ہیں۔
کتاب میں کل پچّیس ۲۵ مضامین اور عطاشاد کی ایک انٹرویو شامل ہیں۔ ان میں اکثر مضامین ”ماہنامہ سنگت“ عطاشاد نمبر فروری ۲۰۰۰ سے لئے گئے ہیں اور چند مضامین اسی ماہنامہ کے فروری ۲۰۱۴ کے شمارے سے لئے گئے ہیں۔ آخر میں عطاشاد کی اردو کی معروف شاعرہ پروین شاکر کے ساتھ ایک انٹرویو ہے جو یوٹیوب سے لیا گیا ہے۔ انٹرویو سے عطا کے بارے میں ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ شاعری کو کیا سمجھتے ہیں۔
مشاعروں کے بارے میں ان سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں،”آپ نے ایسے مشاعرے بھی دیکھے ہیں جن میں دس ہزار آدمی ہوتے ہیں، اب آپ یہ مجھے بتائیے کہ دس ہزار ”ٹیسٹ“ اور اگر آدھا بھی کر لیں تو پانچ ہزار، تو کہاں کہاں آپ کیئر کریں گے اور پھر یہ کہ اپنے آپ کو مار کے ان کو خوش کرنے کے لئے میں سمجھتا ہوں کہ فن کے ساتھ زیادتی ہوگی۔“
عطا کے بارے میں اکثر لوگوں کو یہی کہتے سنا ہے کہ انکی شاعری مشکل ہے، اسے ہرکوئی سمجھ نہیں سکتا۔ وہ خود بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ سب کے لئے نہیں لکھتے بلکہ ان کی نظر میں اہمیت ”فن“ (شعر) کی ہے۔ سب کو خوش کرنے کے چکّر میں وہ فن کو قربان کرنے کے حامی نہیں ہیں کیونکہ وہ پاپولر رائٹر نہیں تھے، ایک سنجیدہ اور سلجھے ہوئے شاعر تھے۔
دوسری بات جو انٹرویو میں اس نے واضح کی ہے وہ یہ کہ عطا کہتے ہیں اردو میرا ”سبجیکٹ” ہے۔ فارسی اور بلوچی شاعری کا میں نے مطالعہ کیا ہے اور جن زبانوں کے تراجم ہم تک پہنچے ہیں وہ بھی میں نے پڑھے ہیں۔ اس لئے میری شاعری ”قدیم“ اور ”جدّت“ کے مختلف رنگوں کا متزاج ہے۔
مضامین کی اگر بات کریں تو ان میں اکثر مضامین ان لوگوں نے لکھے ہیں جو عطا کے عہد میں زندہ رہے ہیں۔ عطا کی شاعری سے زیادہ انہوں نے عطا کی ”شخصیت“ پہ بات کی ہے اور کچھ مضامین کی حیثیت اخباری کالموں سے زیادہ نہیں ہے۔
سنگت اکیڈمی سے جڑے جن قلمکاروں نے عطا پہ لکھا ہے ان سب نے عطا کی شاعری کو مارکسی نقطہِ نظر سے پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ جن میں وحید زہیر، ڈاکٹر منیر رئیسانی اور نورخان محمد حسنی قابلِ ذکر ہیں۔ یہ لوگ چونکہ خود مارکسسٹ ہیں ، اس لئے ہر چیز کو مارکسزم کی عینک سے دیکھنے کے عادی ہیں۔
البتہ عطاشاد کی شخصیت پہ ان مضامین میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اس کی تصانیف، ادبی خدمات، ایوارڈز، تراجم وغیرہ پہ یہ مضامین ریفرنس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عطا کی شخصیت پہ جامع ترین مضمون اثیر عبدالقادر شاہوانی کی ہے۔ اس میں عطا کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ ”مہناز “ کی بلوچی نظم جو عطاشاد نے اردو کا ”پوشاک“ پہنایا ہے، وہ پہلی دفعہ میں نے اسی کتاب میں پڑھی ہے۔ آئیں آپ بھی اس نظم کے کچھ شعر پڑھ لیں اور عطا کی فنی صلاحیتوں کو سراہتے رہیں۔
”ماہناز“
میں وہ انجیر کا پیڑ
جو اُگے
گہری کھائی کے گھنے سائے میں
تند طوفان سے بھی جس کے کبھی پتے نہ ہلیں
تیز بارش میں بھی بھیگے نہ کبھی
اس شعر کو پڑھنے سے بلوچی میں جو تاثیر ”ماہناز“ کی نظم میں محسوس کیا جاتا ہے وہ اس میں کم نہیں ہوا ہے بلکہ شعر کی خوبصورتی اور روانی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس اے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عطا نے بلوچی کلاسیکل شاعری کا کتنی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ پھر اس شعر کو اردو کے پیرہن میں ایسے سجایا گیا ہے کہ زبان پہ عطا کی گرفت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایک شاعر یا مترجم کے لئے ضروری ہے کہ جس زبان میں بھی وہ لکھ رہا ہے اس زبان پہ اسے پوری طرح دسترس ہو، عطا اسے معاملے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ جتنا وہ ماہرِ اردو تھا اُتنا ہی بلوچی کے لہجوں اور لفظیات سے واقفیت رکھتے تھے۔
ان مضامین میں اے۔آر داد کا مضمون قابلِ ذکر ہے جس میں انہوں نے عطا کی شاعری کو جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ عطا کی شاعری کو سمجھنے کے لئے اس مضمون سے آپ استفادہ تو نہیں کر سکتے مگر اتنا ضرور ہے کہ یہ روایتی مضامین سے ہٹ کر ہے۔
باقی اکثر مضامین کی نوعیت روایتی تبصروں سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد عطا کی شخصیت اور شاعری عام قارئیں کی نظر میں کیا ہے، یہ آپ پہ واضح ہوگی۔
No comments:
Post a Comment