پھیل رہا ہے اندر اندر دل کا ڈر، سناٹا ہے
گونگی ہیں چاروں دیواریں، سارا گھر سناٹا ہے
میرے ذہن کی دیواروں پہ اِک آسیبی سایہ ہے
شبدوں کا جادو ٹوٹا ہے چو منتر سناٹا ہے
سَن سَن کرتی ریت ہوا کی رینگ رہی ہے کانوں میں
آوازوں نے ہجرت کی ہے سڑکوں پر سناٹا ہے
اپنی سوچ کے پانی میں تو اکثر نیچے اُترا ہوں
شور سطح پہ تیر رہا ہے، بیچ بھنور سناٹا ہے
No comments:
Post a Comment