بلوچ نسل کشی کے خلاف 25 جنوری کو بلوچ نسل کشی کے یادگار دن کی مناسبت سے آج دالبندین میں بلوچ راجی مچّی کا انعقاد کیا گیا۔ اس مچّی(اجتماع) میں بلوچستان بھر (مغربی بلوچستان اور مشرقی بلوچستان ) سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ ریاستی اداروں کی دھمکیاں، لوگوں کو ہراساں کرنے کے تمام ہتھکنڈے، موبائل اور انٹرنیٹ سروس کی بندش، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے باوجود بلوچستان بھر سے لوگوں نے اس مچّی میں شرکت کرکے یہ ثابت کردیا کہ بلوچ اس ملک کی پالیسیوں سے کتنا تنگ آچکا ہے۔
ریاستی اداروں نے اس مچّی کو ناکام بنانے کی حتیٰ الوسع کوششیں کی۔ پچھلے دنوں وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کی دالبندین آمد اور لوگوں کے لئے پیکیج کا اعلان بھی اسی مچّی کو روکنے کی ایک کوشش تھی۔
ان تمام ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کے باوجود ریاستی ادارے اس اجتماع کو ناکام بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ راجی مچّی میں لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ بلوچ بحیثیتِ قوم ایک کرائسس سے گزر رہی ہے۔ جہاں نہ کسی کی جان محفوظ ہے، نہ مال و عزت۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی سرکردگی میں ”بلوچ یکجہتی کمیٹی“ لوگوں کا اتنا بڑا اجتماع اکھٹا کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ بلوچ قوم کی امیدیں اب بلوچ یکجہتی کمیٹی سے وابسطہ ہیں ، کیونکہ بلوچ قوم اب نام نہاد سیاسی پارٹیوں سے تنگ آچکی ہے جن کا مقصد صرف ایوانوں میں بیٹھ کر اپنے من پسند لوگوں کو مراعات سے نوازنا ہے۔ نہ قومی معاملات سے کوئی سروکار رکھتے ہیں اور نہ ہی بلوچستان کے بنیادی مسائل میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
آج کی تاریخی اجتماع بلوچ قوم کی طرف سے ایک واضح ریفرینڈم تھا کہ بلوچ بحیثیتِ قوم اب اس ریاست سے تنگ آچکی ہے۔
No comments:
Post a Comment