"اور یوں بھی دنیا میں کتابوں کے علاوہ کوئی بھی چیز اصل میں ڈراؤنی نہیں ہوتی۔“
انہی کتابوں نے تو انسان کو تباہ کیا ہے، مطلب اچھا خاصا انسان جب پڑھتا ہے تو سوچتا ہے، جب سوچتا ہے تو بولتا ہے اور جب بولتا ہے تو کچھ کرتا ہے۔ یہی کچھ کرنا کبھی مقتدرہ کلاس یا ظالم کو ہضم نہیں ہوتی اور وہ فوراََ ایسا سرکس سجانے لگتے ہیں کہ عام لوگ سوچنے سمجھنے سے عاری ہوں اور ظالم اپنی مدّتِ حکمرانی کو مزید طول دینے میں کامیاب ہو۔ انہی کتابوں سے کرنیں پھوٹتی ہیں اور اندھیروں کا سینہ چاک کرکے انسان کو ایک خوبصورت مستقبل کی طرف لے جاتی ہیں۔ اسی لئے تو گلیلیو پہ مقدمہ چلا، سقراط نے زہر کا پیالہ نوش کیا اور ابنِ رُشد کو کسی حکمران نے اپنی دھرتی پہ بھٹکنے نہ دیا۔ بقولِ جون ایلیاء:
”ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پہ“
اوپر جو کوٹڈ جملہ ہے وہ مس نیل ہارپرلی کی کتاب ”معصومیت کا قتل“ سے لی گئی ہے جس کا اردو ترجمہ شوکت نواز نیازی نے کیا ہے۔ 2020 میں اس ترجمے کو بہترین اردو ترجمے کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا اور اب تک یہ ناول دنیا کی سو بہترین کتابوں میں شامل ہے۔ کم از کم میرا مشورہ تو یہی ہے کہ یہ کتاب ہر کسی کو پڑھنا چاہیے۔
ناول کی پوری کہانی ایک چھوٹے سے شہر میکومب کاؤنٹی کے گِرد گھومتی ہے جس میں کہانی کے کرداروں کی تعداد انتہائی محدود ہے۔ اس میں 1930 کی دہائی میں جنوبی امریکہ کے سماج کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔ سفید فارموں کی متعصب ذہنیت، سیاہ فارموں کی ذبوں حالی، ان پہ ڈھائے گئے مظالم اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی ایک ایسی داستان ہے جسے پڑھتے وقت کئی مرتبہ قاری کا دل بیٹھ جاتا ہے اور آنکھیں پرنم ہوتی ہیں۔
کہانی کا مرکزی کردار مسٹر ایٹکس ہے جو پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل ہے اور قانون ساز اسمبلی کا ممبر ہے۔ وہ ایک نیگرو ”ٹام رابنسن“ کو انصاف دلانے کے لئے اپنا سب کچھ داؤ پہ لگانے کے باوجود بھی کیس ہار جاتے ہیں مگر اپنے ضمیر کی عدالت میں وہ سرخرو ہو کہ نکلتے ہیں۔ جس نیگرو پہ ایک لڑکی سے زیادتی کا الزام ہے اصل میں وہ اس جرم کا مرتکب ہوتا ہی نہیں ہے مگر پھر بھی وہاں کی جیوری اسے مجرم ثابت کرکے اس کو ان کئے جرم کی سزا ، سزائے موت دیتی ہے۔ وجہ صرف یہی ہے کہ وہ نیگرو ہے۔ نیگروؤں کو انسان نہیں سمجھا جاتا کیونکہ وہ کالے ہیں، غلیظ ہیں، انسانیت سے عاری ہیں، غیر مہذب ہیں، بدمعاش، چور ڈاکو اور پتہ نہیں کیا کیا ہیں۔ یہ سب سفید فارموں کی متعصب ذہنیت ہے جو نیگروؤں کو انسان نہیں بلکہ جانوروں سے بھی بدتر مخلوق سمجھتی ہے اور ان پہ ہرطرح کی ظلم وستم کو جائز سمجھتی ہے۔ مسٹر ایٹکس بس یہی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان، انسان ہوتا ہے چاہے اس کی جلد سفید ہو یا کالی ہو۔ انہی جیسے لوگوں کی بدولت آج ایک سیاہ فارم امریکہ کا صدر بھی منتخب ہوتا ہے۔
پوری کہانی میں سسپنس کو اس طرح برقرار رکھا گیا ہے کہ قاری ہر صفحہ مکمل ہونے سے پہلے دوسرے صفحے پر پہنچنے کے لئے بے تاب رہتا ہے۔ اس تجسس کو برقرار رکھنے لئے مصنفہ نے کہانی میں جن تین بچّوں کا کردار شامل کیا ہے اس سے کہانی کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
کہانی میں خاص طور پر بچوں کی نفسیات اور ان کی پرورش کے طور طریقوں پر سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ بچے کس طرح سوچتے ہیں، کن حالات میں ان کا ردِعمل کیا ہوگا یہ سب چیزیں میں نے اسی کتاب سے سیکھی ہیں۔ میں ایک بار پھر کہوں گا کہ یہ کتاب اپنے بچّوں کو ضرور پڑھائیں۔ کیونکہ مجموعی طور پر ہم سب متعصب ہیں۔ کہیں رنگ و نسل کی تعصب، کہیں ذات کی ، کہیں فرقہ و مذہب کی تو کہیں کلاس کی بنیاد پر تعصب ہمارے معاشرے میں بھی جڑ پکڑ چکی ہے۔
آخر میں ایک بچّی جو کہانی میں ایک کردار ہے اس کا یہی جملہ یہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ بچّے ہم سے کتنا مختلف سوچتے ہیں اور پھر ہم ان کے ذہنوں میں کتنی خرافات ڈالتے ہیں۔ سکاؤٹ اپنے بھائی سے کہتی ہے:
”نہیں جیم، میرا خیال ہے سب لوگ ایک جیسے ہوتے ہیں۔ سب لوگ۔۔۔“
No comments:
Post a Comment