انسان اپنے چہرے پہ جتنی بھی نقابیں چڑھا لے بالآخر اسے اپنی حقیقی دنیا میں واپس آنا پڑے گا جہاں صرف وہ اپنے حقیقی چہرے سے ہی زندہ رہ سکتا ہے۔ حقیقت جتنا بھی گنھاؤنا ہو مگر خودساختہ مصنوعیت سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ ایسی ہی کسی کردار کو موضوع بنا کر گبرئیل گارشیا مرکیز نے اپنا آخری ناول قلم بند کیا۔ یہ ناول لکھتے وقت چونکہ وہ ذہنی طور پر نارمل نہیں تھے اور انہیں بھولنے کی بیماری تھی اس لئے وہ اس ناول کو چھاپنا نہیں چاہتے تھے اور اس نے باقاعدہ اپنے بچّوں کو وصیت بھی کی تھی کہ اس کتاب کو تلف کیاجائے۔
مارکیز کی وفات کے بعد دس سال تک یہ ناول الماری کی دراز میں پڑا رہا جو روز اُس کے بچّوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی تھی۔ بالآخر انہوں نے بھی ٹھان لی اور باپ کی وصیت کو پسِ پُشت ڈال کر اس کتاب کو چھاپنے کا تہیہ کرلیا۔ کتاب مصنف کی موت کے دس سال بعد چھپ کر قارئین تک پہنچ گئی۔ ضرور اس کہانی میں کہیں نہ کہیں کوئی کمی رہ گئی تھی جسے مارکیز جیسا مدبّر اور سنجیدہ ادیب چھاپنا نہیں چاہتا تھا۔ اگر آپ ذہن میں ”تنہائی کے سوسال“ کے مصنف کو تصور کرکے یہ کتاب پڑھیں گے تو میں ابھی سے کہتا ہوں کہ آپ یہ کتاب نہ پڑھیں۔
ہر مصنف کی پہچان ایک خاص تخلیق سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر ”تنہائی کے سو سال“ کا ذکر آئے تو ہمارے ذہن میں ایک انتہائی پیچیدہ، پرلطف اور بہترین کہانی کا تصور ابھرتا ہے جس کے مصنف یہی مارکیز ہیں جنہوں نے ”اگست کے آنے تک“ لکھا ہے۔ مگر ضروری نہیں کہ مصنف کی تمام تخلیقات ایک ہی سٹینڈر کے ہوں۔ ہر مصنف زندگی میں ایک ہی شاہکار تخلیق کر سکتا ہے اور ایسے خوش نصیب بہت کم ہوتے ہیں جو اپنی کسی ایک کتاب سے امر ہوجائیں۔ اسی طرح مارکیز اگر کچھ بھی نہ لکھتے تو ادب کی دنیا میں اسے زندہ رکھنے کے لئے” تنہائی کے سو سال“ ہی کافی تھی۔ مگر اس نے بہت سی بے مثال کہانیاں تخلیق کی ہیں۔ البتہ یہ ناول (Until August) اُس معیار کا نہیں جس معیار پہ مارکیز کی دوسری کہانیاں اُترتی ہیں۔ بہت سے مبصرین نے اس ناول میں موجود خامیوں اور کوتاہیوں کا تذکرہ کیا ہے۔ پھر بھی قاری کے لئے اس ناول میں سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ ہاں البتہ کبھی کبھی گمان ہوتا ہے کہ آپ پاؤلو کوہیلو کا ” گیارہ منٹ“ پڑھ رہے ہیں۔
کہانی ایک عورت کی ہے جس کی عمر چالیس سال سے اُوپر ہے۔ وہ شادی شدہ ہے اور دو بچوں کی ماں ہے ہر سال 16 اگست کو اپنی ماں کے برسی پہ حاںری دینے جزیرے پہ جاتی ہے۔ قبر پہ حاضری دے کر، پھول چڑھا کر واپس آتی ہے۔
اسی جزیرے پہ وہ اپنی مہم کا آغاز کرتی ہے اور بار سے کسی اجنبی کو اپنے کمرے تک لے آتی ہے۔ اس کے ساتھ مباشرت کرتی ہے اور جب صبح اُٹھتی ہے تو وہ آدمی جا چکا ہوتا ہے۔ جس کا نہ اسے نام پتہ ہے اور نہ یہ پتہ ہے کہ کون ہے اور کہاں سے ہے۔ لیکن یہی بندہ جانے سے پہلے اس کی کتاب میں بیس ڈالر چھوڑ کے جاتا ہے۔“
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اکثر مردوں کی نظر میں عورت کی حیثیت بس ایک کھلونے کی ہے۔ اس کے ساتھ کھیلو اور کھیلنے کی فیس دے کر چلتا بنو۔یا بھاری فیس دے کر بیوی کی صورت میں زندگی بھر کے لئے اپنا بناؤ۔ عورت اس دوران کن اذیتوں سے گزرتی ہے، اس کی روح کو کتنا ٹھیس پہنچتی ہے، یہ مرد کا دردِ سر نہیں ہے۔
شوہر کے علاوہ اس کا کئی مردوں سے واسطہ پڑتا ہے جن میں تین کے ساتھ وہ جنسی عمل کرتی ہے۔ جن مردوں کے ساتھ اس کا واسطہ پڑتا ہے، ان میں سے ہر ایک کا رویّہ دوسروں سے مختلف ہے۔ اصل میں مصنف نے معاشرے میں موجود مردوں کی درجہ بندی کی ہے کہ عورت کے متعلق مردوں کے رویّوں میں کتنا فرق ہے۔ ایک مرد عورت کو طوائف سمجھتا ہے، دوسرا اُسے محبوبہ کے روپ میں دیکھنا ہے اور تیسرے کی نظر میں عورت محض ایک تفریح کی چیز ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار اینا مگدالینا ہے ہے جو ایک عورت ہے، مگر کہانی میں عورت سے زیادہ مردوں کے رویّوں کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔یا انہی رویّوں سے ایک عورت کونسے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتی ہے، یہ آپ کہانی میں دیکھ سکتے ہیں۔ خصوصاََ جب کسی عورت کو پتہ ہو کہ اس کی شوہر کے دوسری عورتوں سے ناجائز تعلقات ہیں تو وہ یہ رویّہ کسی بھی طرح برداشت نہیں کرپاتی ہے۔
مختصراََ یہ کہ کہانی میں جنسیات اور جنسی رویّوں سے عورتوں پہ پڑنے والے نفسیاتی اثرات کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔ اگر آپ پڑھنے سے پہلے تھوڑی دیر کے لئے مارکیز کو بھول جائیں تو آپ اس کہانی سے خوب لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment