پشتون قوم اپنی بہادری کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ان کے بارے میں نامور پشتون لکھاری اور مدبّر سیاسی رہنما سائیں کمال خان شیرانی کا کہنا ہے کہ” پشتون ایک بہادر قوم ہے لیکن جس خطے میں یہ آباد ہے یہ خطہ صدیوں سے جنگ زدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پشتون ذہنی طور پر منتشر ہیں اور کوئی بھی طاقت انہیں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔” (البتہ اب پشتون تحفظ موومنٹ کے آغاز سے حالات کافی حد تک بدل گئے ہیں) ان کے بارے میں دوسری بات جو خالد حسینی نے اپنی کتاب ” آ تاؤزینڈ سپلنڈد سنز“ میں کی ہے وہ بھی کافی دلچسپ ہے۔ وہ کہتے ہیں” ایک دفعہ قحط سالی کی وجہ سے کافی عرصے کے لئے دریائے کابل سوکھ گیا تو وہاں کی مقامی پشون آبادی نے دریا میں ٹھیلے لگا کر اس کو ایک مارکیٹ میں تبدیل کر دیا۔“ کاروبار کے حوالے سے بھی یہ قوم اپنا ثانی نہیں رکھتی، اسی طرح حسن و خوبصورتی میں بھی یہ اپنی مثال آپ ہیں۔ میرا یہی مشورہ ہے کہ جب ان علاقوں کی سیر کو جانے کا ارادہ ہو کسی پشتون دوست کو ضرور اپنے ساتھ رکھیں۔
یہاں پہ پشتون دوستوں کی ہمّت سے میں دھنگ رہ گیا۔
ریذیڈینسی کے اوپر والے ایریا میں ایف۔سی کا کیمپ نما چوکی تھا۔ وہاں برف زیادہ پڑی تھی تو ہم تصویریں بنانے گئے۔ پیچھے سے سپاہی مسلسل آوازیں دے رہے تھے، مگر مجال ہے کوئی واپس مڑے۔ اپنے حساب سے ہم گھومے، تصویریں لیں اور واپس ہوگئے، ایسا لگ رہا تھا کہ ان کی باتیں سن ہی نہیں رہے ہیں۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اگر ہم سب بلوچ ہوتے تو ایف۔سی والے ایک تو ہمیں وہاں جانے نہیں دیتے، اگر پھر بھی ہم وہاں جاتے تو انکے سخت ہاتھوں کے نشان ضرور ہمارے گالوں پر نشانی کے طور پر رہتے۔ یہ پشتونوں کی ہمت تھی جنہوں نے سپاہیوں کو قریب آنے سے روکے رکھا۔
یہاں سے ہم کرواری بابا گئے۔ کرواری بابا سے یاد آیا کہ زیارت کا پرانا نام ”غوسکی“ ہوا کرتا تھا۔ کرواری بابا جو ایک بزرگ تھے ان کے ”زیارت“ کی وجہ سے پوری وادی کا نام زیارت پڑ گیا۔ کرواری بابا کے ایریا میں ایک جگہ ہے جسے زیرو پوائنٹ کہتے ہیں۔ زیرو پوائنٹ پہ کھڑے ہو کر بادل اتنے قریب نظر آتے ہیں کہ بندے کو لگتا ہے میں آسمان کو چھو رہا ہوں۔ پہاڑوں کی خوبصورت تو یہیں نظر آئی۔ درختوں کا حسن بھی برف نے دوبالا کیا تھا۔ زیارت کی پہچان بھی یہی درخت ہیں جن کو ”لیونگ فوزلز“ کہا جاتا ہے۔ ان میں ایسے درخت بھی ہیں جو ہزاروں سال پرانے ہیں۔ یہ درخت ”صنوبر“ کے ہیں جن کی گروتھ اتنا سست ہے کہ سال میں ایک درخت صرف ایک انچ گرو کرتا ہے۔ اس یخ بسہ موسم میں بھی صنوبر سرسبز و شاداب نظر آئے۔ اونچائی سے گہری کھائی کو دیکھنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ انسان کو لگتا ہے کہ وہ بہت اونچا ہوگیا ہے مگر پھر جب نظر اپنی ”بالاد“ پہ پڑتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کتنی بھی اونچائی پہ کھڑے ہوں معاشرے میں ہماری وقعت کچھ بھی نہیں کیونکہ یہ معاشرہ گلیمر زدہ ہے اور یہاں ہر شخص کئی چہرے لئے گھومتا ہے۔
پہاڑوں کا حسن اپنی جگہ مگر یہاں جو ”نازک پریاں“ برف پہ گرتے پھسلتے جب ایک دوسرے پہ برف کے گولے پھینک رہے تھے تو حسرت پیدا ہوگئی کہ کاش میری” پری“ بھی میرے ساتھ ہوتی اور ہم دنیا سے بے خبر یہاں ایک دوسرے کو گراتے بچاتے یہیں برف پہ پڑے رہتے۔۔۔ پھر خیال آیا کہ وہ اگر زیرو پوائنٹ پہ پہنچتی تو وہاں گھنٹوں خاموش بیٹھ کر قدرت کے کرشموں کا نظارہ کرنے میں گُم ہوجاتی۔
کوئی بھی منظر ہو انسان زیادہ دیر اس سے محفوظ نہیں ہو سکتا اور بالآخر اُکتا جاتا ہے۔ تو ہم بھی اُکتا گئے۔
یہاں سے ”نانا زیارت“ جانے کا ارادہ تھا، پھر وہاں سے سنجاوی۔ مگر پوچھ تاچ سے معلوم ہوا کہ بارش کی وجہ سے راستے خراب ہیں۔ تو ہم نے بھی کوئٹے کی راہ لی اور سنجاوی جانے کا ارادہ ملتوی کردیا۔
No comments:
Post a Comment