در در ٹھوکر کھاتا ڈاکٹر مبارک علی


 

ڈاکٹر مبارک علی


ڈاکٹر مبارک علی ایک ایسے مؤرخ ہیں جس سے شناسائی سکول کے زمانے میں ہوئی۔ سکول میں ایک چھوٹی سی لائبریری، الماریوں میں بند کتابیں جو چیخ چیخ کر قاری کو پڑھنے کی دعوت دیتے تھے مگر ہمارے علاقے میں غیر نصابی کتابوں کو پڑھنے کا رواج نہ ہونے کی وجہ سے کبھی ان الماریوں کے تالے نہیں کھلتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ بلوچستان کے حالات بہت خراب ہوگئے۔ نواب بگٹی شہید کئے گئے۔ طلبہ تنظیموں کے  انقلابی نعرے گلی کوچوں میں گونجنے لگے، سٹڈی سرکلز لگنے لگے، پمپلٹ اور کتابچوں کی بھرمار ہوگئی، سیاسی بحث مباحثوں نے زور پکڑ لی۔ اب عزت صرف انہی لوگوں کی رہی  جو کچھ پڑھتے یا سیاسی سمجھ بوجھ رکھتے تھے۔ ان حالات میں تالے پڑی الماریاں کھلنے لگیں، طلبہ سرکلز میں سیاسی بحثیں چھڑگئیں اور کتابوں پر تبصرے ہونے لگے۔ اسی دوران ہم نے بھی غیر نصابی کتابوں کا رخ کیا۔ جب ایک بار پڑھنے کی لت لگ گئی تو یہ عادت کبھی نہیں چھوٹی۔ ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب ”تاریخ اور دانشور“ اسی دوران میں نے پڑھی۔  اس کے بعد ان کی کوئی بھی کتاب ہاتھ لگ جاتی تو میں اسے ضرور پڑھتا۔

دوسرے مؤرخین سے اسے یہی چیز ممتاز رکھتی ہے کہ اسے کوئی بھی قاری چاہے اس کی عمر جتنی بھی ہو سمجھ سکتا ہے۔ لکھنے میں ان کا اسلوب افسانوی ہے اور آسان زبان میں اس طرح لکھتا ہے کہ پڑھنے والا نہ بیزار ہوتا ہے اور نہ ہی اسے سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے۔ پاکستان میں تاریخ کو بالکل ایک نئے انداز میں پیش کرنے کا کریڈٹ بھی مبارک علی کو جاتا ہے۔ ”نجی زندگی کی تاریخ“ یا ”خاندان کی تاریخ “ جیسے موضوعات پہ پہلے کسی نے لکھنا مناسب نہیں سمجھا۔ مبارک علی نے انہی موضوعات پہ لکھا ہے جن کو روایتی مؤرخین نے یکسر نظر انداز کیا ہوا تھا۔

تاریخ پہ مبارک علی کی کتابیں اپنی جگہ لیکن جس طرح انہوں نے اپنی آپ بیتی قلم بند کی ہے وہ بھی روایتی انداز سے ہٹ کر ہے۔ ان کی آپ بیتی کی دونوں حصّے ”میری دنیا“ اور ”در در ٹھوکر کھائے“ جب میں نے پڑھے تو میں یہی توقع کر رہا تھا کہ شاید دوسرے دانشوروں کی طرح اس میں مرچ مصالحہ ڈال کر خود کو بہت بڑی ہستی ثابت کرنے کے کوشش کی گئی ہو۔ مگر مصنف نے نہ تو خود کو ہیرو بنا کر پیش کیا ہے اور نہ ہی اپنے گھریلو معاملات یا ذاتی معاملات کو اس میں جگہ دی ہے بلکہ پڑھنے سے یہ بات خود ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی ہمیشہ اپنے اصولوں پہ گزاری ہے۔ پڑھائی سے لے کر شادی، شادی  سے لے کر روزگار اور رہائش ہر چیز انہوں نے اپنی مرضی کے مطابق کی ہے۔ 

ٹونک سے پاکستان ہجرت کرنا، حیدر آباد میں رہائش اختیار کرنا، پھر حیدر آباد سے لندن، جرمنی اور واپس لاہور تک جہاں بھی رہے انہوں نے زندگی میں صرف خواری ہی دیکھی ہے۔ اپنے تجربات کو بہتریں انداز میں بیان کیا ہے اور جن لوگوں سے ان کا واسطہ پڑا ہے ان کی بھی پردہ داری نہیں کی ہے۔ مثلاََ شیخ ایاز جیسے مشہور شخصیت کی اصلیت کو آشکار کرنے میں وہ نہیں ہچکچائے۔ 

آخر میں بس ان کی ایک بات مجھے بُری لگی کہ جس مؤرخ کے  قارئین کی اکثریت  بلوچ ہو وہ بھی بلوچ کو بلوچی لکھتے ہوں تو اس کا دکھ ہمیں ضرور ہوگا۔

No comments:

Post a Comment

عطاشاد ءِ سر ءَ وت ءَ ”اتھارٹی“ منّارینگ ءِ تچ ءُ تاگ

  ایردستیں راجانی یک مزنیں جیڑہ یے اش انت کہ آ باز کم وتی جند ءِ سر ءَ بیسہ کن انت۔ بلکیں در ءَ چہ آؤکیں ھر مردم آھانی نزّ ءَ چہ آھاں  دانا ...