کرشن چندر کی ناول ”ایک عورت ہزار دیوانے“


 


اس سماج میں عورت سے جو رویّہ اختیار کیا گیا ہے اس سے عورت کی سماجی حیثیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مختصراََ یہ کہ عورت کو بس ایک سیکس اوبجیکٹ سمجھا جاتا ہے اور ہر مرد کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اسے اس گوشت کے ٹکڑے سے کھیلنے کا موقع ملے۔ یہ انسان کی فطری جبلت ہے یا سماجی تربیت کا نتیجہ ہے جو بھی بولیں مگر اس معاشرے میں عورت کی حیثیت اتنی سی ہے۔ 

عورتوں اور خاص طور پر کمزور عورتوں کو کس طرح سماج میں ٹریٹ کیا جاتا ہے اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ چونکہ یہ مسئلہ مشرقی معاشرے زیادہ شدّت سے پایا جاتا ہے تو ہندوستانی ادب میں ہمیشہ یہ ایک خاص موضوع رہا ہے۔

گلیوں میں، بازاروں میں، تعلیمی اداروں میں، ہسپیتالوں میں، حتیٰ کہ گھر کی چار دیواری میں بھی عورت محفوظ نہیں ہے۔ عورت جہاں بھی جاتی ہے مردوں کی حریص نگاہیں اس کا تعاقب کر رہی ہوتی ہیں۔ سماج کے اس رویّے سے عورت کتنا ذہنی دباؤ کا شکار ہوتی ہے اس کا اندازہ آپ کرشن چندر کے ناول ”ایک عورت ہزار دیوانے“ سے لگا سکتے ہیں۔

اس ناول کا بنیادی کردار ایک خانہ بدوش لڑکی ”لاچی“ ہے۔ خانہ بدوش جن کا کوئی وطن نہیں ہوتا، جو پوری دنیا کو اپنا وطن سمجھتے ہیں، جو سخت تعین حالات سے زندگی کا نغمہ کشید کرنے کا گُر جانتے ہیں، جو فطرت کے ساتھ ایسے گھل مل جاتے ہیں کہ روایتی انداز اور خود ساختگی کے آثار ان میں کہیں نظر نہیں آتے۔

تو بات ہو رہی تھی لاچی کی۔ لاچی ایک انتہائی خوبصور جوان لڑکی ہے۔ ریلوے سٹیشن پہ پورا دن بھیک مانگتی پھرتی ہے اور رات کو اپنی پوری کمائی اپنی ماں کے حوالے کرکے پھر اگلی صبح کے انتظار میں نہ جانے کب نیند کی آغوش میں چلی جاتی ہے۔

وقت کو بدلتے دیر نہیں لگتی۔ جب کوئی لڑکی جوان ہے، پھر خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ غریب بھی ہو تو اس کے لئے زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ لاچی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ حمیدا ٹیکسی ڈرائیور، مادھو دکاندار، قبیلے کا سردار، پلاسٹک مل کا مالک، سٹیشن ماسٹر غرض اس کے ارد گرد ہر شخص اس کلی کو توڑنے کے لئے بے تاب رہتا ہے۔ اس حسن پہ جس کی بھی نظر پڑتی ہے اس کے منہ میں پانی آتا ہے۔

مصنف نے لاچی کے حسن، وہاں کے روایات اور مناظر کو بہترین انداز میں بیان کیا ہے۔ لوگ کیوں ایسا سوچتے ہیں جب کسی غریب یا بھکارن کو دیکھتے ہیں اور یہی لوگ کسی امیر عورت کو دیکھتے ہیں تو کیوں جملے کسنے اے گریز کرتے ہیں۔ یہ انسان کی نفسیات ہے۔

پھر لاچی کو محبت ہوتی ہے۔ اپنی محبت حاصل کرنے کے لئے وہ قبیلے کے سردار کو قتل کرتی ہے۔ جیل جاتی ہے، وہاں بھی وہی حالات ہوتے ہیں۔ ہر کوئی اس کی عصمت دری کے درپے ہوتا ہے۔ جیل سپرنٹنڈنٹ سے لیکر امیر قیدی سب اس کلی کو حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر لاچی اپنی عصمت صرف اپنے محبوب کے لئے بچا کے رکھتی ہے۔

جیل میں بیمار پڑ جاتی ہے اور چیچک اسکی حسن کے ساتھ اسکی آنکھیں بھی چھین لیتی ہے۔ اب لاچی، لاچی نہیں رہتی بلکہ ایک اندھی بدصورت چڑیل بن جاتی ہے۔

اب وہی جیل سپرنٹنڈنٹ جو اسکی تصویریں بناتا تھا اور اسے پیرس لے جانے کا خواب دیکھ رہا تھا اسے کمرے میں ایک منٹ بھی برداشت نہیں کرتا۔ شوخ و چنچل لاچی اب ایک اندھی بھکارن بن جاتی ہے۔

جیل سے نکلنے کے بعد جب کافی عرصے بعد ”گل“ (لاچی کے محبوب) سے اس کی ملاقات ہوتی ہے تو وہ بھی اسے نہیں پہچانتا۔ بلکہ لاچی کو اپنانے سے بھی انکار کرتا ہے۔ جس شخص کے لئے وہ قتل کرتی ہے، جیل جاتی ہے، اپنے قبیلے سے لڑتی ہے، پوری دنیا سے لڑکر اپنی عصمت بچاتی ہے اور وہی محبوب اسے اپناتا نہیں ہے۔ کیونکہ اب وہ لاچی نہیں رہی، اس کا حسن تباہ ہوگیا، اب وہ ایک اندھی بھکارن ہے۔

یہاں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ محبت حسن سے ہوتی ہے۔ اگر حسن اور جوانی دونوں ڈھل جائیں تو اس سماج میں عورت کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی۔

خوبصور منظر نگاری، انسانی جذبات اور درد و کرب سے بھری کہانی ”ایک عورت ہزار دیوانے“ کرشن چندر کے شاہکار ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔

No comments:

Post a Comment

عطاشاد ءِ سر ءَ وت ءَ ”اتھارٹی“ منّارینگ ءِ تچ ءُ تاگ

  ایردستیں راجانی یک مزنیں جیڑہ یے اش انت کہ آ باز کم وتی جند ءِ سر ءَ بیسہ کن انت۔ بلکیں در ءَ چہ آؤکیں ھر مردم آھانی نزّ ءَ چہ آھاں  دانا ...