عطاشاد اگر اُردو میں نہ لکھتے ۔۔۔!؟




ادبی تخلیقات  وہی ہیں جو صدیوں تک زندہ رہ سکیں۔ کچھ شعراء ایسے ہوتے ہیں جن کو زندگی میں کوئی پڑھنے والا نہیں ملتا مگر مرنے کے بعد اُن کو نقّاد زندہ رکھتے ہیں، اصل میں ان کو سمجھنے والے کافی عرصہ بعد پیدا ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے تخلیق کار ہوتے ہیں جو اپنی زندگی میں بھی خود کو منواتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تخلیقات کو مزید گہرائی سے سمجھنے اور پڑھنے والے مل جاتے ہیں۔ عطاشاد اسی قبیل کے ایک شاعر گزرے ہیں۔

آج اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی عطا پہ بات ہوتی ہے، اسکی شاعری کو نئی جہتوں سے پرکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، سیمینارز منعقد کئے جاتے ہیں، بحث مباحثے ہوتے ہیں اور تنقید کے نئے زاویوں سے اسے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غالب آج بھی زندہ ہے، حافظ آج بھی زندہ ہے، گلی کوچوں میں فیض کے اشعار گونجتے ہیں اور سمندر کنارے شام کو لہریں مبارک کے اشعار کا شائبہ پیش کرتی ہیں۔

آج جب کانوں میں یہ آواز پڑے:

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی


تو فوراََ غالب یاد آتے ہیں۔ دہلی کی گلیوں میں گھومتا ناتواں بزرگ لڑکھڑاتا ذہن کے کینوس پہ نمودار ہوتا ہے۔ یا کہیں کسی کو کہتے سنیں:

کہساروں کی عطا رسم نہیں خاموشی

رات سو جائے تو بہتا ہوا چشمہ بولے

یہ شعر سنتے ہی سرِشام شال کی گلیوں میں ”ٹوٹتا بدن“ لے کر ایک نیم عمر بکھرا ہوا شخص نظر آتا ہے جسے عطا تصور کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایسے اشعار ہیں جو ضرب المثل کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ ان سے ہر روز معنویت کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔ جن کو ہر روز ایک نئے عینک سے دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کبھی معدوم نہیں ہوتے، کبھی پرانے نہیں ہوتے، کبھی ان کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ ایسے اشعار ایک ایسا شاعر تخلیق کر سکتا ہے جو شاعری کو صرف ایک تفریح کا ذریعہ نہ سمجھے بلکہ شاعری کو ایک عبادت سمجھ کر زبان اور فن کے ساتھ انصاف کرنے کی کوشش کرے۔

عطا شاد کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کبھی بھی اپنی اشعار سے مطمئن نہیں ہوتاتھا۔ ہر وقت اسی کوشش میں ہوتا کہ ایک شعر کو مکمل کرنے کے بعد پھر سے چھیڑتا، جب دوبارہ نظر سے گزرتی تو اس میں ضرور کوئی رد و بدل کرتے۔ ایک دن ایک دوست کہہ رہے تھے کہ جب عطا نے اپنا یہ شعر لکھا تھا تو پہلے یہ اس طرح تھا:

”رات سو جائے تو بہتا ہوا جھرنا بولے“

پھر جھرنا کو تبدیل کرکے اس طرح لکھا ہے:

”رات سو جائے تو بہتا ہوا دریا بولے“

آخر میں نہ جھرنا رہا اور نہ ہی دریا بلکہ شعر سرجری کے مختلف مراحل سے گزر کر اس قالب میں ڈھل گیا” رات سوجائے تو بہتا ہوا چشمہ بولے“۔ یہ ایک مثال ہے کہ اپنی تخلیقات سے شاعر کو اس حد تک لگاؤ ہے کہ جب بھی اسے موقع ملتا ہے ان کے نوک پَلک سنوارنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔

بلوچی میں بھی عطا کا یہی حال ہے۔ اپنی ایک انٹرویو میں پروین شاکر کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ جب دوستوں نے اسرار کیا کہ میں بلوچی میں بھی شاعری کروں تو میں نے ان سے کہا کہ شاعری کے صرف ایک زبان کا بولنے والا کافی نہیں ہے۔ جب تک میں بلوچی کے بارے میں کچھ نہ پڑوں میں لکھ نہیں سکتا۔“ پھر عطا نے بلوچی کے تمام لہجوں کا مطالعہ کیا، بلوچی کلاسیکل شاعری، نئے دور کی شاعری اور بلوچی لفظیات کو پڑھنے کے بعد ہی بلوچی میں انہوں نے شعر کہنا شروع کیا۔ جب بلوچی میں شاعری کی تو یہاں بھی کمال کر دکھایا۔

قصّہ مختصر، میرا مقصد یہاں نہ عطا کی تعریف میں ستاروں کو نیچے لانے کا ہے اور نہ ہی ڈکھے چپھے الفاظ سے اپنی کم علمی کو چپھانا ہے بلکہ عطاشاد کے ساتھ  اردو نقادوں کی بد دیانتی کا پردہ چاک کرنا ہے۔ایک تو عطا پہ اردو میں بہت کم لکھا جاچکا ہے۔ اگر کچھ لکھا گیا ہے تو اس میں بھی کام کی چیزیں بہت کم نظر آتی ہے۔ اردو کے اکثر نقاد بلوچ قلمکاروں کو ایک تو اپنا ہمسر نہیں سمجھتے دوسرا ان سے علاقائی تعصب بھی انتہا کی رکھتے ہیں۔ میں بذاتِ خود اس تجربے سے گزرا ہوں۔ ایک دفعہ گجرات میں قومی سطح کے ایک کانفرنس میں ہم نے شرکت کی، پاکستان بھر سے لوگ آئے تھے۔ وہاں جب میں نے چند لکھاریوں سے پوچھا کہ بلوچستان سے آپ لوگوں نے کس کس کو پڑھا ہے؟ تو انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا سوائے فارس مغل کے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ہم جس زبان میں بھی لکھیں ہمارے پڑھنے والے ”اپنے“ ہی ہیں۔ عطا کو پڑھا گیا، مشاعروں میں مدعو کیا گیا، سناگیا، مگر جب باری آئی اس پہ لکھنے کی تو سب  روایتی تبصرے لکھ کر جیسے اپنے فرض سے سبکدوش ہوگئے۔  کسی نے ریڈیو کے زمانے کی یادیں لکھی ہیں، کسی نے ٹی۔وی سے اسکی جڑت کی کہانی بیان کی ہے تو کوئی اسے بس ”بڑا شاعر“ کہہ کر چُپ بیٹھا ہے۔ مگر عطا کیسے بڑے شاعر ہیں، کس طرح دوسروں سے الگ ہیں، کیوں مختلف ہیں اصل میں بات تو اسی پہ ہونی چاہیے۔

مثلاََ محسن شکیل کہتے ہیں کہ عطا کی شاعری میں بلوچی زبان کی لوک داستانوں کے مختلف کردار بولتے ہیں۔“ یہ کردار تو ہماری شاعری میں اکثر نظر آتے ہیں مگر عطا نے ان میں جدّت کیا لائی ہے؟ ان کی معنویت کو کتنا متاثر کیا ہے اس پہ بات نہیں کی ہے۔ پروفیسر مجتبیٰ حسین لکھتے ہیں کہ عطا کی شاعری نے مجھے ایسی جگہ پہنچا دیا ہے جہاں قدیم بھی ہے جدید بھی ہے۔۔۔۔ وہ اپنے مہیب پیکر کے ساتھ پتھریلی زمین میں پنجے گاڑے کھڑی ہے ۔۔اور اس کے قوی شانوں پہ دو سر ہیں۔۔۔ جب ایک بولتا ہے تو دوسرا چُپ رہتا ہے۔“ اب یہ دو سر کیا ہیں ؟ کیوں بولتے ہیں یا کیوں چُپ رہتے ہیں ؟ تنقید کے کونسے تھیوری یہاں پہ اپلائی ہوتے ہیں ؟ کس بنیاد پہ یہ باتیں کی جاتی ہیں ان کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔

دوسری طرف بلوچستان سے جن شعرا اور قلمکاروں نے عطا کی اردو شاعری پہ لکھا ہے ان میں اکثر مارکسسٹ ہیں۔ انہوں نے عطا کی شاعری کو مارکسی نقطئہ نظر سے دیکھا ہے۔ انہی اشعار کو اٹھایا ہے جہاں پہ طبقات کا ذکر ہو، یا مارکسی عینک لگا کر کہیں نہ کہیں سے مارکسزم کی حمایت میں کچھ ڈھونڈا ہے۔ لیکن عطا کو ڈھونڈنے کی کوشش  نہیں کیا گیا ہے۔ پروفیسر مجتبیٰ حسین کی ایک بات قابلِ ذکر ہے۔ وہ لکھتے ہیں،

”عطاشاد نے مجھے جس عالم میں پہنچا دیا۔۔۔ یہ اپنی آب و ہوا، بود وباش اور سوز و ساز کے اعتبار سے مختلف ہے۔ اردو شاعری میں یہ ایک نئی جہت کی نشاندہی ہے۔ اس کے لئے انہوں  نے شعوری کوشش، لفظ، فنی کرتب اور اردو کو ”ہم زمین“ بنانے کی کاوش سے کام نہیں لیا ہے۔“

عطا شاد نے واقعی میں اپنی شاعری میں نکھار لانے کے لئے شعوری کوشش کی ہے۔ عطا کی لفظیات، تراکیب، شاعری کی زمین اور خیالات ان کو اپنے ہم عصروں سے الگ رکھتے ہیں۔ عطا اگر اپنی شاعری میں ”کہسار“ کہتے ہیں تو یہ کہسار پہلے بھی کافی شعراء کے کلام میں ملتا ہے، جس انداز میں عطا نے اس لفظ کو خوبصورتی سے جگہ دی ہے یہی ان کا کمال ہے۔

مختصراََ بات یہ ہے کہ عطاشاد اگر اردو میں نہ لکھتے بھی عطا شاد، عطاشاد ہی رہتے۔ البتہ اردو نقاد اپنے متعصبانہ رویّے کی وجہ سے عطاشاد پہ لکھنے سے گریزاں ہیں۔ انہوں نے اردو کو چند ایسے تراکیب اور الفاظ دیئے ہیں جن سے اردو کا دامن مزید وسیع ہوگیا ہے اور ان موتیوں سے اردو کی خوبصورتی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ مثلاََ گل چہرہ صدف نگاہ، گل نژاد، ابد تاب، خوش جسم، آتش لب، زربدن، شعلہ نما، نظروخواب، نظرِنژاد، شب گزار یاد، سنگ زاد، اندساعت، نشیب آشنا، استعارہء جاں، ماہتاب یاد، قندیل دل اور سیکنڑوں ایسے تراکیب جو عطا کے بعد اردو میں رواج پا چکے ہیں۔ عطا کے بعد کئی شعراء نے عطا کی زمین پہ شاعری کی کوشش کی ہے جو آج بھی جاری ہے۔ بس ان کو نہ کبھی سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے اور نہ ہی ان کی فن کے بکھرے گُلوں کو چُن کر اردو کے گلدان میں  سجانے کی کوشش کی گئی ہے۔ آخر میں عطا شاد کا یہ نظم ملاحظہ فرمائیں، شاید میرے الفاظ کی تلخی میں کچھ کمی واقع ہو۔


یہ چشمے کی پانی میں کیسا غبار آگیا ہے

گزرتے ہوئے کاروانوں کی یادیں

جلے پتھروں پر

ٹھہرتی شبوں کی، یہ کیا

راکھ لکھ کر گئی ہیں

شکستہ طنابوں پہ خیموں کی تحریر کیا تھی

پڑھی بھی نہ جائے، سنی بھی نہ جائے

وہ بوڑھی زبانوں کی مشفق کہانی تھی کیا

نقش جن کے ہواؤں نے کہلا دیئے ہیں

یہ جب میں نے سوچا

تو ایسا لگا

جب وادی کے سب سرد پتھر پگھلنے لگے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment

آزمانکک درچک اوں سہدار اَنت ۔۔ جوگندر پال/شوھاز

  آزمانکک  درچک اوں سہدار اَنت جوگندر پال/عبداللہ شوھاز درچک گڈّے ءَ گوں دوئیں دستاں تپر داں سر ءِ برزی ءَ برت  ئِے کہ زورانی پُر ءَ درچک ءِ...