پھولوں کے کاغذ پہ آگ کی لکھت


 


 ”میری تحریر، کیا نظم اور نثر، میں جانتی ہوں غیر قانونی بچّے کی طرح ہیں۔“

یہ الفاظ پنجابی کی مشہور ادیبہ امرتا پریتم کے ہیں جنہوں نے اپنی آپ بیتی لکھنے سے پہلے یہ تہیہ کرلیا تھا کہ وہ اپنی آپ بیتی صرف دس سطروں میں لکھے گی، جس کا پہلا سطر یہی ہوگا۔ سچ میں اگر آپ دیکھ لیں تو اعلیٰ پائے کا ادب جس میں صدیوں تک زندہ رہنے کی صلاحیت موجود ہو وہ سماجی رویّوں، فرسودہ روایات، قبائلی، معاشرتی اور مذہبی پابندیوں سے بالاتر ہو تو اس کی حیثیت ایک ناجائز بچّے کی ہوتی ہے جسے معاصرین میں سے کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔کیونکہ ایسے بچّے تب جنم لیتے ہیں جب دنیا دل سے عشق کرے اور ان کے ملاپ سے جو ادب تخلیق ہوتی ہے وہ نہ صرف اپنے عہد کی ترجمانی کرتی ہے بلکہ اس کے آئینے میں آپ صدیوں پر مشتمل معاشرتی اُتار چڑھاؤ دیکھ سکتے ہیں۔

تو قصّہ چل نکلا امرتا پریتم کی آپ بیتی ”رسیدی ٹکٹ“ سے۔ آپ بیتی لکھنے کا رواج میرے خیال میں ہندوستان اور پاکستان میں ایک بہترین مشغلہ رہا ہے۔ بہت سے ادباء اور سیاستدانوں نے اپنی آپ بیتیوں میں خود کو زندہ رکھنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ مگر میں صرف ان لوگوں کی آپ بیتیاں پڑھتا ہوں جن کے بارے میں پہلے سے کچھ اندازہ ہو کہ ان سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ ابھی تک جو آپ بیتیاں میں نے پڑھی تھیں ان میں سرِ فہرست، نیلسن منڈیلا کی آپ بیتی ”آزادی کی شاہراہ پر“ ،مہاتما گاندھی کی آپ بیتی ”مائی ایکسپیریئنس وِد ٹُرت“ ،عبداللہ جان جمالدینی کی آپ بیتی ”لٹ خانہ“، ”برٹرینڈ رسل کی آپ بیتی ”رسل کی آپ بیتی“ اور پابلو نرودا کی آپ بیتی”یادیں“ شامل تھیں، مگر اب اس پسندیدگی کی فہرست میں ایک اور آپ بیتی کا اضافہ ہوا، جو ہے ”رسیدی ٹکٹ“۔

اس خطے میں ادب کے اکثر قارئین امرتا پریتم کے نام سے واقف ہونگے۔ امرتا جو شاعرہ بھی تھی، افسانہ نگار تھی اور اپنے عہد کی بہترین ناول نگاروں کی صف میں کھڑی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی امرتا کی کہانیوں کو اسی طرح پڑھا اور پسند کیا جاتا ہے۔ چونکہ وہ ناول نگار اور شاعرہ تھی اس لئے ان کی آپ بیتی پڑھتے وقت بھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ شاعری کی تشریح پڑھ رہے ہیں یا کبھی کبھی لگتا ہے کہ آپ کسی کہانی کو شعر میں ڈھالنے کی کوشش کرتے امرتا کے سامنے بیٹھے انہیں حیرانی سے تک رہے ہیں۔ امرتا جو اپنے عہد میں اپنی زبان کے معاصر ادیبوں کے طعنے، جھوٹے الزامات، خودساختہ کہانیوں اور بے بنیاد تنقید کی زد میں رہا، کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ کیا فائدہ ایسی زبان میں لکھنے کا جہاں آپ کی خدمات کا اعتراف کرنے کے بجائے سب اپنی توانائیاں آپ کو نیچا دکھانے پہ صرف کر رہی ہوں۔ اگر ان کی جگہ کوئی

 بلوچی کا ادیب ہوتا تو یقیناََ خود کُشی کرتا یا پاگل ہوجاتا۔ جب بھی میں اُن کا موازنہ اپنے دور کے ادیبوں سے کرتا ہوں تو مجھے اپنے لوگوں پہ ترس آتا ہے کہ کرنا کیا ہے اور وہ پھنسے کہاں ہیں۔

امرتا کی کہانیاں پڑھتے وقت مجھے ہمیشہ محسوس ہوتا کہ وہ بڑی کرب سے گزری روح کی مالکن تھی، مگر یہ درد و الم اس نے کہاں سے اور کیسے اپنی دامن میں جگہ دی ہیں اور کیونکر دی ہیں اس کا پتہ ”رسیدی ٹکٹ“ پڑھنے کے بعد چلا۔

امرتا پریتم میں بنیادی طور پر دو خوبیاں پائی جاتی تھیں۔ ایک وہ انتہائی درجے کے حقیقت پسند تھے، جو بھی وہ سمجھتے تھے کہ لکھنا ہے یا جس بھی ممنوع موضوع کو زیرِ بحث لانا ہے وہ لے آتے، کبھی کتراتے نہیں تھے۔ یعنی وہ کٹر قسم کے باغی تھے۔ دوسری خاصیت جو اسے زندہ رکھ سکی وہ اعتراف کرنے کی جرات ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں جو بھی غلطیاں کی ہیں، پیار کی ہے، محبت کی ہے، کسی سے نفرت کی ہے یا کسی سے تنگ آچکے ہیں وہ ہر چیز کا اعتراف کرتے ہیں۔ جب انہیں ساحر (ساحر لدھیانوی جو اردو کے مشہور شاعر گزرے ہیں)سے عشق ہوتی ہے تو وہ کھل کر اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ وہ اس محبت کی وجہ سے ذہنی طور پر مفلوج ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس محبت کا اسکی بچّوں سمیت ان کے شوہر (امروز) کو بھی پتہ ہوتا ہے۔ مگر وہ اس بات پر مصر رہتی ہیں کہ اگر کسی نے اسے قبول کرنا ہے تو ویسے ہی کرے جیسے وہ ہیں، وہ اپنی ترمیم شدہ صورت نہ اپنے لئے پسند کرتے ہیں اور نہ دوسروں کے لئے۔

ساحر سے اس کی محبت کس نوعیت کی ہوتی ہے اس کا اندازہ آپ مندرجہ ذیل واقعہ سے کر سکتے ہیں۔

”لاہور ، جب کبھی ساحر ملنے کے لئے آیا کرتا تھا گویا میری ہی خاموشی سے خاموشی کا ٹکڑا، کرسی پر بیٹھتا اور چلا جاتا۔

وہ چپ چاپ صرف سگریٹ پیتا رہتا تھا۔ قریب آدھا سگریٹ پی کر راکھ دانی میں جھاڑ دیتا اور پھر نیا سگریٹ سلگا لیتا۔اور اس کے جانے کے بعد صرف سگریٹوں کے بڑے بڑے ٹکڑے کمرے میں رہ جاتے تھے۔۔۔

اس کے جانے کے بعد میں اس کے چھوڑے ہوئے سگریٹوں کے ٹکڑے سمبھال کے الماری میں رکھ لیتی تھی۔ اور پھر ایک ایک ٹکڑے کو تنہائی میں بیٹھ کر جلاتی تھی، اور جب ان کو انگلیوں میں پکڑتی تھی، محسوس ہوتا تھا۔۔۔ جیسے اس کا ہاتھ چھو رہی ہوں۔۔۔“

محبت کی ایسی شدّت کو ایک حسّاس روح ہی بیان کر سکتی ہیں۔ ساحر سے اپنی محبت کی کہانی بیان کرتے ہوئے وہ کبھی نہیں سوچتی تھی کہ وہ ایک مسلمان ہیں اور میں سکّھ ہوں، کیونکہ محبّت نہ سرحدوں کی پابند ہوتی ہے، نہ مذہب کی ، نہ ذات کی اور نہ ہی رطبے اور سماجی حیثیت کی۔ اس لئے جس بندے سے پھر امرتا نے شادی کی وہ بھی مسلمان تھے۔ امروز جو اس کے بچّوں کا باپ ہے۔ امرتا جو نہ صرف لفظوں کی حد تک سوشلسٹ تھی بلکہ اس نے عملاََ یہ کرکے دکھایا۔ ہمارے بلوچستان کے سوشلسٹوں کی طرح نہیں تھی جو اپنی بیویوں کو ستر چادروں میں ڈھانپنے کے باوجود بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم عورت اور مرد کی برابری کے علمبردار ہیں۔

امرتا اگر باغی نہ ہوتی تو آج ہم ان کا ذکر نہ کرتے۔ اپنے معاصرین میں سے اکثر ادباء جن کا ذکر اس نے اپنی آپ بیتی میں کیا ہے ان کا نام پہلی بار میں سُن رہا ہوں کہ پنجابی ادب میں اتنے بڑے لوگ بھی ہوا کرتے تھے، جن کا کام بس دوسروں پر کیچھڑ اچھالنا تھا۔ اگر وہ بھی انہی جیسا ہوتا تو آج زندہ نہیں ہوتا، آج ہم اسے نہیں پڑھتے اور نہ ہی اس کی کہانیوں کے کرداروں کو اپنے آس پاس بھٹکتے دیکھتے۔ اس نے سب سے پہلے

 بچپن میں اپنی ہی دادی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرلی جب اس نے دیکھا کہ دادی نے ابو کے مسلمان دوستوں کے لئے الگ گلاسیں رکھی ہیں۔ جب وہ آتے ہیں تو یہ گلاس استعمال میں لائے جاتے ہیں اور ان کے جانے کے بعد پھر کچن کے کسی کونے میں پڑے رہتے ہیں، بالکل اچھوتوں کی طرح۔ اس نے اسی رویّے کے خلاف احتجاج کیا اور انہی گلاسوں میں پانی پینے کی ضد پکڑ لی۔ بالآخر دادی نے ہتھیار ڈھال دیئے اور پھر اُس گھر میں گلاسیں نہ ہندو رہے نہ مسلمان، بلکہ گلاس ہی رہے۔ اپنے بارے میں بھی امرتا کا کچھ یہی خیال تھا، وہ خود کو نہ سکھ سمجھتی تھی نہ مسلمان، بلکہ سب سے بالاتر ہوکر وہ ایک انسان تھی اور سب کو اپنے برابر سمجھتی تھی۔

ہمارے معاشرے (بلوچ سماج) میں اکثر خواتیں یہ گلہ کرتی ہیں کہ انہیں مرد کم تر درجے کی مخلوق سمجھتے ہیں، مگر امرتا کو پڑھتے وقت کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ عورت ہونے کی وجہ سے احساسِ کمتری کا شکار ہوئی ہیں۔ یہی رویّہ اندرا گاندھی کا بھی تھا۔ جب امرتا اندرا گاندھی کی زندگی پہ بننے والی فلم کی کہانی لکھ رہی تھیں تو وہ کہتی ہیں کہ میں نے اندرا جی سے پوچھا، اندرا جی کیا آپ کا عورت ہونا کبھی آپ کے کاموں میں حارج ہوا ہے؟ تو اندرا نے جواب دیا:

”عورت، مرد کی رعایت کے بغیر میں نے اپنے آپ کو ہمیشہ انسان خیال کیا ہے۔“

امرتا بھی خود کو انسان ہی سمجھتی تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کے لئے سب سے بڑی ذمّہ داری اپنی قلم کا حق ادا کرنا تھا جو اُس نے کیا۔ کہانیاں لکھی، شاعری کی، کئی ممالک کا سفر کیا، ایوارڈ لیا، داد بھی وصول کیا اور لوگوں کی بے جا تنقید اور گالم گلوچ کو برداشت کیا مگر کبھی اپنے کام سے اس کا فوکس نہیں ہٹا۔

یہی وجہ ہے کہ میں کہتا ہوں امرتا پریتم ایک ایسی روح تھی جس نے زندگی کی بہاریں بھی دیکھی ہیں اور شدید تنہائی اور رنجیدگی کے عالم میں ڈپریشن کی تاریکیوں میں بھی زندہ رہنے کی کوشش کی ہے۔ وہ خود لکھتی ہیں:

”اب۔۔۔۔وقت پاکر شہرت کو گمنامی اور بدنامی کو زندگی کے موسم کہہ سکتی ہوں۔ تسلّی بھی ہے کہ سارے موسم دیکھے ہیں۔“

امرتا نے زندگی کی سرد و گرم دیکھی تھی اور یہی موسم جو اس نے اپنی زندگی میں دیکھے تھے ان کی کہانیوں کے کرداروں میں ڈھل گئے جو ادب کی دنیا میں امر ہوگئے۔ اگر آپ ”آپ بیتیاں“ پڑھنے کا شوقین ہیں تو ”رسیدی ٹکٹ“ ایک بہترین انتخاب ہوسکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment

عطاشاد ءِ سر ءَ وت ءَ ”اتھارٹی“ منّارینگ ءِ تچ ءُ تاگ

  ایردستیں راجانی یک مزنیں جیڑہ یے اش انت کہ آ باز کم وتی جند ءِ سر ءَ بیسہ کن انت۔ بلکیں در ءَ چہ آؤکیں ھر مردم آھانی نزّ ءَ چہ آھاں  دانا ...