اگر ہم یہ کہیں کہ مغربی ادب کے مطالعے نے ادب کے متعلق ہمارے روایتی فکری رویّوں کو چیلنج کیا ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا۔ مگر چونکہ ہماری ادب کی جڑیں مشرقی طرزِ فکر کی سرزمین میں پیوست ہیں تو ہمارا تخلیقی ادب اکثر اسی طرزِ فکر کی ترجمانی کرتا نظر آئے گا۔ مغرب اور مشرق کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ مغرب ”ڈارک ایج“ سے نکلنے کے بعد ایک واضح ڈائریکشن پہ اپنا سمت درست کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے، جبکہ ہم ابھی تک اپنی ماضی کے گُن گاتے نہیں تھکتے کہ ہمارا ماضی کتنا خوبصورت اور کتنا شاندار تھا، جس کی طرف ہم لاشعوری طور پر ہمیشہ لوٹنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ہم جس دور کو ”گولڈن ہِرا“ کہتے ہیں اصل میں ایسے کسی نظام کا وجود ہی نہیں تھا۔ اسی سراب کے چکر میں ہم نہ حال میں رہنے کے قابل ہیں اور نہ ہی ماضی کی شان و شوکت سے کوئی قابلِ فخر تخلیق کی کھوج لگانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری فکشن مجھے اکثر ہوا میں اُڑتی نظر آتی ہے، جو اپنی جڑیں نہ اپنی زمین میں گھاڑنے کے قابل ہے نہ ہی نئے نظریات کو اپنے سانچے میں ڈالنے کی سکّت رکھتی ہے۔ ہوسکتا ہے ایسا نہ ہو مگر میرا مشاہدہ یہی ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ ہماری ادب نے تخیلقی بیجوں کی آبیاری نہیں کی ہے یا ہم ویرانوں میں کھلے ”گواڑخ“ کے قدر داں نہیں ہیں۔ جن لوگوں نے اپنی مٹّی سے پھیلی خوشبو اور خون کی بہتی ندیوں کے نظارے اپنے دامن میں سمیٹنے کی شعوری کوشش کی ہی تو وہ ادب کی دنیا میں اپنا الگ پہچان پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اگر ادب صرف ذاتی خواہشات، نا آسودہ امنگوں، کتھارسز، لگے لپٹے الفاظ میں اپنی ذاتی محرومیوں کا تذکرہ ہو تو وہ وقتی طور پر قاری کے لئے محظوظ ہونے کا ذریعہ تو ہو سکتا ہے مگر کہکشانِ ادب میں دیر تک چمکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
ایسے ہی ایک ادیب مشرق میں گزرے ہیں جس کو پڑھتے وقت کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ آپ کسی بڑے ادیب کو پڑھ رہے ہیں۔ کیونکہ یہ الفاظ کا کھیل نہیں کھیلتے بلکہ ادب کو ادب کی طرح ٹریٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ شخص تھے رابندر ناتھ ٹیگور، اس نام سے شاید آپ سب واقف ہونگے۔ ٹیگور کا نام ہم نے بچپن میں سنا تھا، پھر کافی عرصہ بعد انہیں پڑھنے کا موقع ملا۔ اب جب ان کے افسانوں کے مجموعہ ”اتیاچار“ کا اردو ترجمہ ہاتھ لگ گیا تو لگا جیسے آج سے کئی برس پہلے ہم بنگال کے گلی کوچوں میں ایک بزرگ کے ساتھ گھوم رہے ہیں جو ہر چھوٹی چھوٹی بات پہ ایک پوری کہانی سنانے کا عادی ہو۔ ہم بھی ساتھ ہو لئے اور کہانیوں کا سلسلہ چل نکلا۔
چلتے چلتے ہم روڈ کنارے کسی پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ یہیں سے ایک نوجوان سوٹڈ بوٹڈ چشمہ لگا کر اپنے دو محافظوں کے ساتھ گزر گیا۔ ٹیگور جی ایک بار تو مسکرا دیئے پھر بولے”بھائی“ میں حیران ہوگیا اس بندے کو دیکھ کر وہ بھائی کیوں بول رہے ہیں۔ جب میں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ گویا ہوئے، ”یہ بندہ فارن سے پڑھ کر آیا ہے۔ آج کل نوجوانوں کی یہ حالت ہے کہ جب بھی فارن سے پڑھ کر آتے ہیں تو اُن کے خیال میں ان کے بزرگ سب بے وقوف ہیں۔ مگر تہذیب کے رنگوں میں ایسے رنگ جاتے ہیں کہ ان کے خیال میں مشرقی معاشرے سے جڑے تمام اقدار، رسم و رواج، خاندانی نظام، رکھ رکھاؤ اور بھائی چارے کے احساسات سب فضول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کھیپ خود کو بہت ہی دانا سمجھتی ہے، جن کی نظر میں باقی سب لوگ عقل سے عاری ہیں۔ اسی نوجوان کو جب اس کے والد نے اپنی جائیداد کی ذمّہ داری سونپ کر خود کاشی یاترا کے لئے نکل پڑے تو اس نے تمام مزارعوں اور کاشتکاروں سے زمینیں اور جائیدادیں واپس لینا شروع کئے۔ کورٹ کچہری کے چکّر سے بچنے کے لئے اکثر کاشتکاروں نے زمین واپس کئے مگر احمدی کے لڑکے رمضانی نے زمین واپس کرنے سے صاف انکار کیا۔ کرشن گوپال (یہی بندہ) حیران ہوگیا کہ انہوں نے برہمنوں سے زمین لی ہے اور ایک مسلم بیوہ کا لڑکا اتنا گستاخ ہوگیا ہے کہ زمین دینے سے انکاری ہے۔“ ٹیگور تھوڑا خاموش ہوگئے اور پیپل پہ بیٹھے چڑیوں کی چہچہاہٹ سننے لگے۔
اس بات سے ہندو معاشرے میں ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر تعصب کا اندازہ ہوتا ہے۔ مطلب یہ کیڑہ صرف مسلمانوں میں نہیں دنیا کے ہر کٹر مذہبی میں ہوتا ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو خود سے کمتر سمجھتا ہے۔ کرشن گوپال کو غصّہ بھی اسی بات پہ آیا کہ نادان باپ نے کیوں ایک مسلم بیوہ کے لڑکے کو اتنا سر پہ چڑھا رکھا ہے کہ وہ مالک کی برابری کرنے لگا ہے۔
دوسری بات جو یہاں ٹیگور کے خیالات کی عکاسی کرتی ہے وہ ان کا کلاس سسٹم سے نفرت ہے۔ ہو سکتا ہے ان کا بائیں بازو سے کوئی تعلق نہ رہا ہو لیکن اس کہانی سے پتہ چلتا ہے کہ وہ معاشرے میں برابری کے پرچارک تھے۔ کلاس سسٹم سے ان کو گھن آتی تھی، کیونکہ اسی نا برابری کی وجہ سے ایک بندہ جتنا بھی قابل ہو وہ اپنے طبقے کی وجہ سے کسی اور کا غلام رہتا ہے جس میں نہ کوئی قابلیت ہوتا ہے نہ کوئی کام کرنے کی صلاحیت، مگر چونکہ وہ پشتینی جائیداد کا مالک ہے اس لئے وہ مالک ہی رہے گا۔
ایک لمحہ خاموشی چھا گئی اور پھر ٹیگور نے سلسلہِ کلام جاری کرتے ہوئے کہا،” بات چیت جب بات نہ بنی تو دونوں مقدمہ بازی پہ اُتر آئے۔ رمضانی نے عدالت میں کیس دائر کردی تو مقدمہ دیوانی سے فوجداری اور فوجداری سے ڈسٹرکٹ کورٹ چلا گیا۔ پھر وہاں سے ہائیکورٹ تک پہنچ گیا۔ اس دوراں رمضانی کی والدہ احمدی نے جب اپنے لڑکے سے کہا کہ آپ مالک کے خلاف کیس نہ کریں۔ جس بندے نے ہمیں پوری زندگی پال کر ہم پہ احسان کیا ہے آپ اس کی پگڑی نہ اُچھالیں۔ مگر بیٹے نے کہا کہ آپ اس بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ جب ماں نے کرشن گوپال کو سمجھانے کی کوشش کی تو اس کا بھی یہی جواب تھا کہ آپ ان معاملات کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔“ یہیں سے پھر ٹیگور خاموش ہوگئے، لگتا تھا وہ پھر سے کسی گہری سوچ میں پڑگئے ہوں۔
اصل میں ہندوستانی معاشرے میں عورت کو کبھی مرد کے برابر نہیں سمجھا جاتا۔ عورت کو ہمیشہ جلد باز، کم عقل اور جذباتی تصّور کیا جاتا ہے جو حقیقی دنیا کے بارے میں کسی قسم کی رائے قائم کرنے کی اہل نہیں ہے۔ یہاں سے اندازہ ہوا کہ ٹیگور فیمنسٹ بھی تھے۔ وہ نہ صرف کلاس سسٹم کے خلاف تھے بلکہ عورت پر مرد کی برتری کو بھی برداشت نہیں کرت تھے۔ کہیں اگر کوئی عورت کو خود سے کمتر سمجھتا تو یہ بات انہیں کٹھکتی تھی۔ زندگی کو جنم دینے والی ہستی کمتر درجے کی مخلوق کیسے ہو سکتی ہے۔
میں اپنے خیالی دنیا میں مگن تھا اور ساتھ ساتھ متجسس بھی تھا کہ رمضانی کا کیا بنا؟
میری بے چینی کو بھانپتے ہوئے ٹیگور نے فرمایا،” لڑکے کو اپنی ذہانت پہ زیادہ یقین تھا اور اسے اس بات کا افسوس بھی نہیں تھا کہ زمیندار ہوتے ہوئے بھی وہ کورٹ کچہری کی چکّریں کاٹ رہا ہے۔ اس لئے وہ مکمل طور پر پُر اُمید تھا کہ ہائیکورٹ کا فیصلہ اس کے حق میں ہوگا اور یہ خودسر مسلمان لڑکا اس کی قدموں میں آکر گرے گا۔ یہی سوچ کر وہ پیشی کے دن کورٹ پہنچ گیا، مگر مقدمے کی کاروائی شروع ہونے سے پہلے اس کا بوڑھا باپ کاشی سے واپس آیا اور لڑکے کو یہ بتا کہ چلا گیا کہ احمدی اس کی منہ بولی بہن ہے۔ جس لڑکے سے وہ مقدمہ بازی پہ تُلا ہوا ہے وہ اصل میں اس کا ”بھائی“ ہے۔“
”بھائی؟“
”ہاں بھائی۔“
”پھر کیا ہوا؟“
پھر کیا ہوا،وہی ہوا جو ہونا تھا۔ مشرقی روایات جیت گئیں۔ اور آپ کو پتہ ہے روایات رویّوں سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں، پھر ایک نظام کو تبدیل کرنے کے لئے انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا کسی کے خواہشات کے مطابق نہیں چلتا بلکہ تبدیلی کا اپنا ایک سائنس ہوتا ہے۔“
باتوں باتوں میں ہم کلکتے کی تنگ و پیچ گلیوں سے نکل کر کھیتوں کی طرف نکل پڑے تاکہ فطرت کے نظاروں سے تھوڑا محظوظ ہو سکیں۔
No comments:
Post a Comment