
سفرنامہ دنیا کے مختلف کونوں کھدروں میں آباد مختلف اقوام اور ثقافتوں کے درمیان رابطے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اگر سیاح نہ ہوتے تو آج امریکہ دریافت نہ ہوتا، یا دنیا ہندوستانی ثقافت اور معاشرت سے کافی دیر بعد واقف ہوتی۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ علم ایک جگہ سے دوسری جگہ انہی سیاحوں اور مترجموں کی توسط سے سفر کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس لئے سفرنامے کی حیثیت سے کبھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ نان فکشن میں سفر نامہ میرا پسندیدہ صنف ہے۔
پڑھنے کے ساتھ ساتھ میں لکھتا بھی ہوں تاکہ جہاں بھی جاؤں قارئین کو وہاں کے مناظر، طرزِ معاشرت، سماجی رویّوں، ثقافتی رنگا رنگیوں، زبانوں، تہذیبوں اور اقوام کی تاریخ سے آگاہ کروں۔ گرچہ اس ٹیکنالوجی کے دور میں سفر ناموں کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ آپ گھر بیٹھے مختلف سائیٹس اور ڈاکومینٹریز کے ذریعے پوری دنیا کی سیر کر سکتے ہیں مگر ایک معاشرے کی حقیقی صورت یا دو معاشروں کا تقابلی جائزہ جو آپ ایک سفرنامے میں دیکھ سکتے ہیں وہ کسی ڈاکومنٹری میں آپ کو نہیں ملتا۔
پھر سفرنامے میں اگر دو خصوصیات ہوں تو اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ ایک یہ کہ سفرنامہ نویس متعصب نہ ہو اور دوسرا وہ ہر چیز کو اس انداز میں بیان کرنے میں کامیاب ہو کہ قاری کو لگے وہ سفر میں مصنف کے ساتھ انہی نظاروں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔
عطاء الحق قاسمی کی بات کریں تو مندرجہ بالا خصوصیات میں صرف وہ ایک کے عامل ہیں۔ ان کا سفر نامہِ یورپ "گوروں کے دیس میں" خالصتاََ ادبی سفر نامہ ہے۔ مگر چونکہ قاسمی ایک صحافی ہیں تو ان کے سفرنامے میں بھی صحافتی رنگ واضح نظر آتا ہے۔ تصویر کا دوسرا رُخ دیکھیں تو وہ انتہائی متعصب نظر آتے ہیں۔ پاکستان کی اتنی تعریف کرتے ہیں کہ اگر ہم اس ملک میں نہ رہ رہے ہوتے تو یقیناََ پاکستان میں جا بسنے کے مشتاق ہوتے۔ دوسری طرف وہ یورپ کو اتنا بیکار اور غیر مہذب دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسے رہنے کے قابل نہیں چھوڑتے۔ خاص طور پر یورپ میں جنسی بے راروی سے وہ سخت نالاں ہیں۔ یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اگر یورپ میں جنسی بے رادوی اپنی انتہا کو پہنچی ہے، جہاں عورتیں بازار میں دکانیں لگا کے اپنا جسم بیچتی ہیں، جہاں ساحل پہ مرد و زن ننگے نہاتے ہیں یا جہاں امرد پرستی عروج پر ہے، تو کیا ہمیں یہ حق بنتا ہے کہ ہم اس بنیاد پہ ان کو تنقید کا نشانہ بنائیں؟
کوئی جرات کرکے یہ سوال کرے کہ ان میں کونسی برائی ہے جو ہمارے ہاں موجود نہیں ہے؟ کبھی پاکستان میں کوئی کیس رپورٹ ہوتا ہے کہ باپ نے اپنی بیٹی سے زیادتی کی ہے، کبھی کسی پانچ سالہ بچّی سے جنسی زیادتی کی خبر میڈیا کی زینت بنی ہوتی ہے، کبھی ہائی وے پر کسی اکیلی عورت کو دیکھ کر بچوں کے سامنے اُس کا ریپ کیا جاتا ہے، کبھی کسی مدرسے میں چھوٹے بچوں کی ویڈیو وائرل ہوتی ہیں جو "روحانی باپ" کی جنسی ہوس کا نشانہ بن رہے ہوتے ہیں۔ اپنے معاشرے کی ان پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد ہمیں بالکل یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہم کسی پر تنقید کریں۔ اگر یورپ میں کوئی عورت اپنا جسم بیچتی ہے تو وہ اپنی مرضی سے یہ کام کرتی ہے جبکہ یہاں عورت نہ گھر پہ محفوظ ہے، نہ اداروں میں اور نہ ہی بازاروں میں۔ عورتوں سے زیادہ یہاں چھوٹے بچّوں کے لئے والدین متفکر ہوتے ہیں کہ جیسے وہ گھر سے نکلتے ہیں "شاہین " اُن کے تاک میں ہوتے ہیں جو کسی کو بھی اکیلے دیکھ کر اُس پہ داوا بول دیتے ہیں۔
دوسری بات جو قاسمی نے اپنے سفر نامے میں کی ہے وہ وہاں آباد مسلمان بچّوں کے حوالے سے اُس کا تشویش ہے۔ وہ نئی نسل کے مسلمانوں کی اخلاقی گراؤٹ سے کافی دل برداشتہ ہیں۔ دین سے اُن کی دُوری اور نئی ثقافت میں ڈھلنے کی وجہ سے یہ نسل یورپی معاشرے میں ضم ہو رہی ہے۔ اب کوئی پوچھے کہ آپ جب کہیں جاتے ہیں اور اس ملک کی تمام آسائشوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اقلیت میں ہونے کے باوجود بھی آپ اپنا الگ قومی اور ثقافتی تشخص برقرار رکھ سکیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان یا ہندوستان سے جتنے لوگ وہاں جاکر آباد ہوئے ہیں وہ اپنے ملک کی ابتر حالات اور تنگدستی سے بیزار ہوکر یہاں سھ نکلے ہیں۔ کون اپنا گھر بار، اپنا وطن اور اپنے لوگوں کو ایسے ہی چھوڑ کے جاتا ہے۔ یہ سب لوگ مجبوری کی حالت میں پتہ نہیں کن کن مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد تب جا کر وہاں سیٹل ہوچکے ہیں۔ اب قاسمی صاحب ان کو تبلیغ کرتے پھرتے ہیں کہ پاکستان آجائیں، یہاں شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ تعصب کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اگر یہی ممالک فری ویزا دینا شروع کریں تو پاکستان میں یہاں کی اشرافیہ اور فوج کے علاوہ کوئی ایک بندہ بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا۔
پھر بات قومی شناخت کی آتی ہے تو اپنے وطن سے بچھڑنے کے بعد آپ کو یہ حقیقت بھی قبول کرنا پڑے گا کہ اب آپ وہ نہیں ہیں جو اپنے وطن میں تھے۔ یہاں سے ہجرت کرنے کے بعد یورپی ممالک میں جو ایک چیز پاکستانیوں میں مشترک ہے وہ ان کا مذہب ہے۔ کیونکہ یہ لوگ مختلف سماجی پسِ منظر سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف قومیتوں کا مکسچر ہوتے ہیں۔ پاکستانی نام سے تو کسی قوم کا وجود ہی نہیں ہے بلکہ یہاں تو سب اپنا الگ قومی شناخت رکھتے ہیں جبکہ یورپ میں جاکر وہ صرف مسلمان رہتے ہیں کیونکہ یہی ان کی الگ پہچان ہے۔ جب کہیں آپ کی آئیڈنٹٹی کا مسئلہ کو تو جس عنصر سے آپ کی شناخت وابسطہ ہو تو اس میں شدّت زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرانی نسل کے مسلمان اپنے بچّوں کے مستقبل کے حوالے سے انتہائی تشویش کا شکار ہیں۔ یہ نسل وہیں پلی بڑھی ہے، اسی ثقافت کے رنگوں میں رنگ گئی ہے، اب انہیں اسی حساب سے جینے دیں۔ ورنہ یہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر نکلیں گے جو کسی کام کے نہیں رہیں گے۔
ان دونوں نکات پہ میں قاسمی صاحب سے سخت اختلاف رکھتا ہوں۔ باقی سفر نامہ خوبصورت ہے۔ قاسمی آپ کی لندن سے لے کر ڈنمارک، بیلجیم، فرانس اور یورپ کے بڑے بڑے شہروں میں گھماتا ہے۔ وہاں خوبصورت لوگوں کی محفل میں بٹھاتا ہے۔ ادبی پرگرامز میں لے جاتا ہے، گلی کوچوں، نائٹ کلبز، قدرتی مناظر اور انسانی تہذیب کے مختلف آثار کی سیر کرواتا ہے اور پھر واپس لے آتا ہے۔
ان کا سفر نامہ لکھنے کا انداز بہت خوبصورت ہے اور بات بات پہ جب وہ کوئی شعر سناتے ہیں تو پڑھنے کا مزہ دو بالا ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک بہترین سفر نامہ ہے جس میں آپ یورپ کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ اگر قاسمی اپنی متعصب ذہنیت پاکستان چھوڑ کر جاتے تو یقین مانیے یہ سفرنامہ مزید خوبصورت ہو سکتا تھا۔
No comments:
Post a Comment